اطالوی ویزاعظم جارجیا میلونی کا اہم بیان اور یورپی یونین کی جانب سے امیگریشن کنڑول پر اہم منظوری دے دی گئی اور دیگر ممالک کو محفوظ قرار دے دیا جائے گا اور ان ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو واپس اُن کے ملک میں ڈی پورٹ کیا جائے گا۔
تفصیلات کے مطابق جیسا کہ اس وقت یورپی یونین تارکین وطن کی روزبروز بڑھتی ہوئی آمد کی وجہ سے کافی زیادہ پریشان ہے اور دیگر یورپی ممالک کے جو رہنما ہیں وہ اس مسلے کو کافی زیادہ اہم قرار بھی دے رہے ہیں اور دوسری جانب روس اور یوکرائن کی جنگ کی وجہ سے ابھی تک 80 لاکھ کے قریب یوکرائنی تارکین بھی یورپی ممالک میں آئے ہیں جس کے بعد اب یورپی ممالک میں تارکین کو رکھنے کی گنجائش ختم ہوتی جا رہی ہے۔
جس کی وجہ سے یورپی ممالک کے رہنماؤں کی جانب سے غیر قانونی تارکین وطن کی آمد کو روکنے کے لیے کئی اہم فیصلوں کی منظوری دے دی گئی ہے جس میں سب سے پہلے ایسے ممالک کے تارکین وطن جہاں دہشتگردی یا جنگ کی صورتحال نہیں ہے انہیں محفوظ قرار دیا گیا ہے اور ایسے ممالک کے باشندوں کو جلد ڈی پورٹ کیا جائے گا، خیال رہے ان ممالک کی فہرست میں پاکستان سمیت بنگلہ دیش، انڈیا ترکی، تیونس اور کچھ اور ممالک کو شامل کیا گیا ہے جہاں سے سال 2022 میں تارکین کی بڑی تعداد یورپ میں آئی ہے یعنی کہ ان ممالک کے باشندوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور ان ممالک کو یورپی یونین کی طرف سے محفوظ قرار دیا گیا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ محفوظ ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو یورپ میں اب سیاسی پناہ نہیں دی جائے گی اور ان ممالک کی حکومتوں پر بھی تارکین کو واپس لینے کے لیے دباؤ بڑھا دیا جائے گا جبکہ ان ممالک کے افراد جن کی سیاسی پناہ کی درخواست مسترد ہو چکی ہے انہیں بھی یہاں یورپ سے تیزی کے ساتھ واپس بھیجا جائے گا۔
جبکہ یورپی یونین کی جانب سے جو دوسرے فیصلے پر اتفاق ہوا ہے اُس کے تحت اگر کسی تارکین وطن کا پناہ کا کیس کسی ایک یورپی ملک میں مسترد ہو جاتا ہے تو دوسرے یورپی ممالک بھی اس عدالتی فیصلے پر عمل کریں گے، اور اس موقع پر اطالوی ویزاعظم جارجیا میلونی کی جانب سے بھی خاص بیان دیا گیا ہے جس میں اُن کا کہنا تھا یورپی یونین کو شمالی افریقی ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو روکنے کے لیے ترکی کے ساتھ معاہدے والا ماڈل استعمال کرنا چائیے یعنی کہ ترکی سے غیر قانونی تارکین کو روکنے کے لیے جو 6 ارب یورو کا پیکج دیا گیا تھا اسی طرح کا منصوبہ شمالی افریقی ممالک کے ساتھ بھی کیا جائے۔
0 تبصرے